ڈیٹا بولتا ہے، چیختا ہے ۔۔۔اور چلاتا ہے !
میں نے اپنی پچھلی ایک پوسٹ میں گلگت بلتستان میں کثیر الجہتی غربت کے کچھ اعداد و شمار بیان کئے تھے اور یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ تعلیم ، صحت اور معیار زندگی سے وابستہ یہ کثیر الجہتی غربت کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں۔ یعنی کیا گلگت بلتستان کو خوبصورت تصاویر تک ہی محدود رکھنا لازمی ہے یا ان تصاویرکے پیچھے نظر نہ آنے والی اندوہناک غربت کی تصویر پربھی غور کرنا چاہئیے۔ ان اعداد و شمارکی کھوج لگانا میرا اپنا شوق بھی ہے لیکن اس سے زیادہ میرے لئے یہ بات اہم ہے کہ ایسے رپورٹ صرف کسی دفتر کی شیلف کی زینت بنتے ہیں اور عوام کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ میڈیا بھی یہ حقائق عوام کے سامنے کم ہی پیش کرتا ہے۔
اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی کہ پڑھے لکھے لوگوں نے اس مختصر نوٹ میں دلچسپی دکھائی۔ چند لوگوں نے ان اعدادو شمار کو درست قرار نہیں دیا اس وجہ سے کہ جن علاقوں میں ڈیم اور جنگلات کی بہتات ہے وہاں کثیر الجہتی غربت زیادہ کیوں ہو۔ ضلع ہنزہ کے کچھ لوگوں نے اپنے ضلع کی نسبتاً کم غربت کو علاقے کے لوگوں کی محنت اور آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا اوراسی طرح یہاں کے پڑھے لکھے لوگ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوئے کہ علاقے میں غربت کی شرح کم دکھانا ایک سیاسی چال کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ایسا کرنے سےسرکاری فنڈز یہاں کے لئے کم مختص ہونگے۔ خوشی کی بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ذمہ دار شہریوں نے ان اعداد و شمار پر غور کرنا شروع کیا جو یقیناً ایک اچھے معاشرے کی پہچان ہے ۔ جون ایلیاء نے درست کہا تھا کہ
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سُنی گئی
کچھ فاضل پروفیشنلز نے یہ بھی مشورہ دیا کہ MPI کی جگہ Head Count Ratio غربت کی تصویر بہتر پیش کرتاہے۔ یقیناً اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ہیڈ کاونٹ ریشو سے غربت کی بہتر تصویر کشی ہوتی ہے مگر جب دیکھا گیا کہ ایم پی آئی یعنی ایڈجسٹڈ ہیڈ کاونٹ ریشو بھی اسی تناسب میں جا رہا تھا تو اسی کو دکھایا گیا اوراسی لئے بھی کہ تحقیق سے بات سامنے آئی ہے کہ لوگوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ وہ کن مسائل کا شکار ہیں تو ایڈجسٹڈ پاورٹی کے مسائل کا ذکر ہوتا ہے۔
اب آتے ہیں اعدادوشمار کے اصل مسئلے کی طرف کہ کیا یہ اعدادو شمار ان رپورٹس میں درست ہوتے ہیں؟ کیا دیامر میں ایڈجسٹڈ غربت زیادہ اور ہنزہ میں کم تو نہیں دکھائی گئی؟ کیا یہ ڈیٹا ان علاقوں کا بہتر نقشہ دکھا رہا ؟ اگر نہیں تو کیوں؟اس کے لئے ہمیں ڈیٹا جمع کرنے کے عمل پر غور کرنا ہوگا کہ کیا سروے کرنے والے حضرات بہتر تجربہ رکھتے ہیں؟ کیا اُن کی بہتر ٹریننگ ہوئی ہے؟ کیا سیمپل درست ہے؟ کیا اس طرح کے سروے میں بہتر مانیٹرنگ، سپاٹ چیک، بیک چیک اورکوالٹی ایشورنس ہوتی ہیں؟ اگر ہاں تو پھر ڈیٹا غلط نقشہ کیوں دکھائے؟ MICS کاسروے سرکار اور دیگر معتبراداروں کےزیر اہتمام ہوا ہے اس لئے اس میں اعدادو شمار کی ہیرا پھیری کی گنجائش کم ہے ۔ اگر پھر بھی ایسا کچھ ہو ا ہے تو آئندہ کے سروے میں ان اجزاء کو ملحوظ خاطر رکھنا لازمی ہے۔
میرا ایک دوست گلگت یا سکردو کے کسی ہوٹل میں بیٹھا تھا تو پاس بیٹھے کچھ نوجوان لڑکیاں لڑکے چند سروے فارم پر کررہے تھے۔ انہوں نے غور سے سُنا تو پتہ چلا کہ یہ ایک فیڈرل ادارے کے کسی سیاسی سروے کے فارم پر ہو رہے تھے۔ ان سروے کرنے والوں کو فیلڈ میں بھیجا گیا تھا مگر وہ کسی ریسٹورنٹ میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے یہ کام سر انجام دے رہےتھے۔ آئیں ایک اور اہم قصہ آپ کو سُناتے ہیں۔ میرے دو اچھے دوست ملک کے ایک نامور ادارے کے ساتھ منسلک تھے۔ دونوں فیلڈ میں قریباً دس سال کا تجربہ رکھتے تھے اور وہ اس اہم ادارے میں فیلڈ سے متعلق کام میں مصروف تھے۔ ایک دن میری ان سے ملاقات ہوئی تو ہم ڈیٹا کوالٹی کے موضوع کی طرف آئے۔ میں نے اُن سے چند سوالات پوچھے جن کے جوابات میرے دوستوں کی زبانی سُنیں۔
’’ہم پچھلے کئی سالوں سے ملک کے اس اہم ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فیلڈ کے کام کا بہت تجربہ ہے، پنجابی، پشتو، بلوچی اور سندھی بولتے ہیں۔ ایم فیل کی ڈگریاں رکھتے ہیں اور اپنے کام بہتر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، لیکن ملک کے ایلیٹ یونیورسٹیز سے فریش گریجویٹس آتے ہیں تو انہیں ہمارا باس بناتا جاتا ہے اور پھر وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ آپ فیلڈ میں جا کے ہمارے لئے فلاں ڈیٹا لے آئے، ہم لے آتے ہیں، جمع کرتے ہیں مگر ہمیں اس طرح اینسنٹوائز نہیں کیا جاتا جیسے انہیں کیا جاتا ہے۔۔۔مثلاً ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ میں فیلڈ میں جانے کا حکم ملتا ہے مگر انہیں خاص گاڑی مختص ہوتی ہے۔ اگر ہم مل کر ایک گاڑی میں جائے تو انہیں کے ایف سی یا میکڈونلڈ ڈراپ کرنا ہوتا ہے اور ہم خود کسی ٹرک ہوٹل پر لنچ کرتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ انہیں کھانے میں 2000 تک روپے ایک کھانے میں خرچ کرنے کی گنجائش ہے جبکہ ہم صرف پانچ سو۔۔۔کیا پانچ سو روپے میں ہم بھی کے ایف سی جا سکتے ہیں؟ اور پھر جب کسی شہر میں پہنچتے ہیں تو انہیں سرینا، ہوٹل ون، پی سی یا رامادہ وغیرہ ڈراپ کر کے ہم کسی بس سٹیشن کے فیض آباد یا پیرددھائی جیسے کسی ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔۔اچھا آپ پوچھتے ہونگے کہ کیا ہم ایسا کر کے پیسے بچاتے ہیں؟ بالکل نہیں کیونکہ ہم ڈیٹا کے کام سے وابستہ ہیں اس لئے ہم بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرنے کی اجازت نہیں یعنی وہ ہوٹل ہمارے لئے مختص بجٹ سے باہر ہیں ـ‘‘
یہ کہانی سُن کر میں نے استفسار کیا کہ کیا آپ بہترین ڈیٹا لاتے ہیں انہیں پھر؟ وہ بولے، جی بھائی، ہماری نوکری ہے۔۔۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا یہ جو نوئز آپ کے ذہن میں چل رہا ہوگا اُس کے باوجود بھی آپ ڈیٹا کوالٹی برقرار رکھتے ہیں۔۔وہ بولے۔۔جی کرتے ہیں۔۔۔میں نے کہا۔۔۔آفرین۔۔آجائیں ، ہم مل کر کے ایف سی جاتے ہیں۔
سو یہ کہانیاں ہوتی ہیں ، ڈیٹا جمع کرنے کے اس عمل میں۔۔جی ہاں ڈیٹا قوموں کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے، جی ہاں ڈیٹا مستقبل میں تیل کی طرح اہم ہو رہا ہے۔۔۔ اسی لئے مختلف اداروں میں بڑی کرسیوں پر بیٹھے حضرات کے لئے یہی مشورہ ہے کہ ڈیٹا اکھٹا کرنے کے عمل کو ایک فارمیلٹی نہ سمجھیں، صرف ایلیٹ یونیورسٹیوں کے بچوں کو ہی ترجیح نہ دیں، فیلڈ کے لوگوں کو باقی سٹاف سے بڑھ کر نہیں تو برابری کے حقوق دیں۔ ڈیٹا کوالٹی کو برقرار رکھنے کے لئے فیلڈ ٹیمز، ریسرچرز، مانٹرنگ اینڈ ایوالویشن کی ٹیموں کو اقربا پروری اور ذاتی پسند، ناپسندیدگیوں کی بنیاد پر ٹیم میں نہ رکھیں۔۔اگر آپ ایسا کر رہے ہیں تو اس جرم میں آپ برابر کے شریک ہیں کیونکہ ڈیٹا بولتا ہے۔۔۔چیختا ہے۔۔۔ اورچلاتاہے ۔
نوٹ: (سونی جواری سنٹر آف پبلک پالیسی کا یہ چارٹ، تحریر کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی MPI کو ایک بار پھر دیکھنے کے لئے شئیر کیا جا رہا۔ )